Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر1

احمد شاہ آج پریشان سا ہپستال کے ایک کمرے کہ باہر موجود تھا اور اس کی پیاری سی بیوی اندر اپنے بچے کو دنیا میں لانے کی کوشش کر رہی تھی ڈاکٹر باہر آئ مسٹر احمد مبادک ہو بیٹی ہوئی ہے
احمد سن کر بہت خوش ہوا اور کہا ڈاکٹر میری وائف ٹھیک ہے جی وہ ٹھیک ہے لیکن وہ اب ماں نہیں بن سکتی ڈاکٹر نے کہا اس کی بات سن کر وہ پریشان ہوا لیکن پھر مسکرایا جیسی اللہ کی مرضی اس نے ڈاکٹر کو جواب دیا بہت کم لوگ ہوتے ہے آپ جیسے لیکن پھر بھی بہت مبادک ہو بیٹی کی ڈاکٹر جو ان کو جانتی تھی مسکرا کر کہا اور چلی گئی احمد اب کمرے میں ایا تو نرس نے ایک نازک سا وجود اس کو دیا اس کو دیکھا کر بے اختطار احمد کے منہ سے نکالا ڈاول میری ڈول پاپا کی جان احمد نے اس کا ماتھا چوما اور پھر اپنی بیوی کی طرف ایا وہ کہ دوائی کے زیر اثر سو رہی تھی کچھ دیر اپنی محبت کو دیکھا کر اس کے ساتھ اپنی ڈول کو لیٹ کر باہر آیا اور نرس کو ان دونوں کا خیال رہنے کو کہا احمد باہر اس لیے ایا تھا کہ اپنے گھر والوں کو اطلاع دے دے کہ اللہ نے اس کو رحمت سے نواز ہے کیوں کہ وہ رات ۱ بجے پریشان سا اکیلا ہی گھر سے نکل ایا تھا حریم کو لے کے حریم کی آنکھ کھولی تو روم میں نرس کو دیکھا سسڑ میرا بےبی حریم نے پوچھا آپ کی بیٹی ہوئی ہے مبادک ہو نرس نے کہا اور پیاری سی بچی کو حریم کو دیا حریم نے آنکھوں میں آنسو لیے اپنی بیٹی کو دیکھا اور اس کا چہرہ چوما سسڑ میرے شوہر کہاں ہے حریم نے پوچھا اور باہر گئے ہے آپ ایسا کرو لیٹ جاو بےبی کو اپنے ساتھ لیٹا لو میں ان کو بلاتی ہوں حریم نے ہاں میں سر ہلایا کچھ ہی دیر بعد وہ پھر سے سو گئی اس ہی وقت ایک وجود روم میں ایا اور بچی کو لے کر باہر آیا احمد کو نرس نے نے بتایا کہ آپ کی وائف کو ھوش اگیا ہے وہ خوش ہوتا اندر ایا حریم کو سوتا دیکھ کر مسکرایا حریم حریم میری جان احمد نے حریم کو اٹھنے کی کوشش کی حریم نے آنکھیں کھولی وہ خوش ہوئی احمد میری بیٹھی دیکھی آپ نے میری نہیں ہماری احمد نے اس کے الفاظ درست کیا ہاں ہماری آپ کیا اور بلال کی خواہش پوری ہو گئی ہے ہاں مجھے اور میرے بیٹے کو ڈول چاہی تھی شکریہ یار احمد نے کہا اور حریم کے ماتھے پر پیار کیا حریم ڈول کہاں ہے باتوں میں اب احساس ہوا کہ روم میں بچی موجود نہیں ہے کیا مطلب کہاں ہے حریم نے پوچھا مجھے نہیں پتا میں تو اب ایا ہو روم میں احمد نے پریشان ہوتے کہا احمد میں تو سو رہی تھی اللہ خیر میری بچی اچھا پریشان نہ ہو میں نرس سے پوچھا ہو وہ حریم کو کہاتا خود باہر گیا


تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم خوش رہو گئی مجھے ٹھپر مار تھا نہ اب میں بھی دیکھتا ہو کون تمہاری بچی کو مجھے سے بچاتا ہے وہ نفرت سے کہتا وہ کچری ابادی کی طرف ایا لیکن جیسے اللہ رہے اس کون چیھا سڑک پر ایک کار اس کو اکر لگئ اور بچی کوڑ کے ڈبے میں گری وہ گاڑھی لگنے کی وجہ سے مارا گیا اور دور کہی فجر کی آزان ہو رہی تھی عبداللہ فجر کی نماز پڑھ گھر سے نکل مسجد کافی دود تھی کہ اچانک اس کو بچے کی رونے کی آواز ائی وہ کوڑ کے ڈبے کے پاس ایا اللہ یہ بچا عبداللہ نے جلدی بچا اٹھایا اور پاس والے ہپستال لے ایا کیوں کہ بچی کو سانس لینے میں مسائل ہو رہا تھا


کچھ دن بعد عبداللہ بچی لے کر گھر اگیا تھا عبداللہ کے گھر میں وہ اور اس کی بیوی رہی تھی اس کا گھر کچری ابادی میں تھا عبداللہ مزدری کرتا اور اس کی بیوی گھر میں کپڑے سلائی کرتی دونوں اپنی زندگی میں بہت خوش تھے لیکن ایک کمی تھی ان کی زندگی میں اللہ نے ان کو اولاد کی نعمت سے نہیں نواز تھا عبداللہ نے بہت کوشش کی اس بچی کے ماں باپ مل جائے لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ بچے کوڑ کے ڈبے میں ملتے ہے ان کے ماں باپ خود ان کو پہتے ہے تاکہ وہ اپنا گناہ چھپے سکے اکثر ان کی کچری ابادی میں یہ ہی ہوتا تھا بہت سے بچے ان بستی والوں کو ملتے تھے ان میں سے کچھ مر جاتے اور کچھ ایدھی سیئٹر چلے جاتے لیکن عبداللہ وہ اس بچی پر بہت پیاری آتا اس کا دل نہیں کرتا کہ اس بچی کو ایدھی والوں کو دے اس نے اپنی بیوی سے بات کی کہ بچی کو وہ اپنے پاس رکھے گئے کیسی کی امانت سمجھے کر اس کی بات پر اس کی بیوی ہر خوش ہوئی عبداللہ کی بیوی نے اس کا نام نور رکھا کیونکہ وہ اتنی پیاری اور ان کی زندگی میں نور لے کر ائی تھی


حریم اپنے روم میں تھی ہر وقت اپنی بیٹی کے بارے میں سوچتی رہتی اس ہی وقت روم میں احمد ایا کچھ پتا چلا حریم نے پریشان ہو کر پوچھا ڈول کو حمزہ نے اغوہ کیا تھا لیکن اس کی موت بھی اس ہی رات ہوئی ہے لیکن اس کے پاس ڈول نہیں ملی احمد نفرت اور غصہ سے کہاتا روم سے چلا گیا اس کی بات سن کر حریم رونے لگئ


20 سال بعد نور اٹھا جاو عبداللہ نے نے پیار سے کہا جی بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور اٹھا جاو میں مسجد جارہا ہوں عبداللہ نے کہا جی بابا نور اٹھا کر بیٹھ گئی اور وضو کر کے نماز پڑھی ان سالوں میں عبداللہ اور اس کی بیوی نے بہت محنت کی اور نور کو پڑھا اور نور وہ تو خود جتنی حوبصورت تھی اتنی ہی ذاہین تھی وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے وہ کہ نور نے اپنے بابا کی مدر سے بنایا تھا بابا نے ایک نظر نور کو دیکھا جو جلدی کھا رہی تھی نور تم نے پھر سے سلیم کا منہ نوچ ہے عبداللہ نے سنجیدر لہجہ میں پوچھا جی نور نے ایک الفاظ میں جواب دیا وجہ بابا نے پوچھا وہ مجھے سے شادی کرنا چاہتا تھا بس اس لیے نور نے نفرت سے کہا تو اگر کوئی بھی تم سے شادی کرنے کی خوش رکھتا ہو تم اس کے ساتھ بھی وہی کرو گئی بابا نے افسواس سے کہا جی بابا آپ کو پتا ہے مجھے شادی نہیں کرنی ابھی پڑھنا ہے اور ایک اہم بات کہ میرا میڑ پر یونی میں ایڈمیشن ہو گیا ہے نور نے کہا اچھی بات ہے بیٹا تم پڑھا لکھ جاو مجھے اور تمہاری ماں کو چاھے کیا عبداللہ نے ایک نظر اپنی بیوی کی تصیور کو دیکھا کر کہا اووو بابا آپ اداس نہیں ہوا کرے ماں ہمارے ساتھ ہی ہے نور نے اپنے بابا کو اداس دیکھ کر بولی نور خوش رہو بیٹا اور میں اداس نہیں ہو میرا بیٹا مجھے مسکرا کر دیکھے عبداللہ کی بیوی ایک سال پہلے اس دنیا سے چلی گئی اس کے بعد نور نے عبداللہ اور عبداللہ.نے نور کو سنبھالا تھا بابا آپ جانتے ہے نہ میں مسکراتی نہیں ہو نور نے نارذ ہوتے کہا جانتا ہو لیکن میری جان بابا کو مسکرا کر دیکھے
تو نور مسکرائ وہ ایسی ہی تھی زندگی میں بہت ہی کم مسکرائ ہو شائد


شاہ ولا شاہ ولا میں دو بھائ رہتے تھے ایک احد اور ان کا بھائ احمد دونوں بھائ ہی آرمی میں تھا احد نے اپنی ماما کی پسند سے ہی شادی کی تھی ان کی بیوی کا نام دعا تھا دعا بہت پیار کرنے والی اور گھر کو جوڑنے والی لڑکی تھی ان کے دو بچے تھے ایک وارث علی شاہ اور دوسرا حنس علی شاہ وارث یونی میں پڑھا تھا اور حنس ابھی میڑک میں تھا احمد شاہ نے اپنی پسند سے شادی کی تھی یا یوں کہ لے ایک حادثہ ہوا تھا کہ ان کی شادی حریم سے ہوئی ان کا ایک ہی بیٹا تھا وہ بلال شاہ بلال اور وارث دونوں بہت اچھے دوست تھے دونوں ایک ساتھ پڑھتے ایک ساتھ شرارتے کرتے تھے سب لوگ ناشتہ میں مصروف تھے جب کہ بلال اور وارث کچھ بات کر رہے تھے جو کہ حنس سننے کی کوشش کر رہا تھا ماما ڈیڈ مجھے بھی میرا پارٹنر چاہے مجھے بھی ایک بھائ یا بہن چاھے حنسں نے منہ بناے کر کہا اس کی بات سن کر سب گھر والوں نے ایسا ری اکٹ کیا کے کچھ سنا ہی نہیں ہو جبکہ دعا شرمندہ ہو ہوئی اور احد صاحب مسکرائے شرم نام کی کوئی چیر ہے تم میں کے نہیں دعا نے غصہ سے ایک کا کان مورا اور آپ اس کی بات پر مسکرا کیوں رہے ہے سب آپ کی شہ کا نتجے ہے دعا نے احد صاحب سے کہا میں نے کیا کہا اس کو احد صاحب نے مصعوم بنتے ھوے کہا ایک منٹ ٹھیک ھے میرے کان تو چھور حنسں نے کہا ایسا کرے میری شادی کرو دے اس سے میرے مسائل حل ہو جائے حنسں نے مزہ سے کہا اس کی بات سن کر سب ہسنے لگے اچھا لیکن سب سے پہلے شاہ کی شادی ہو گئی دعا نے پیار سے اپنے بیٹا کو دیکھا کر کہا وارث شاہ کو پانی پی رہا تھا اس کو اچھو لگا جی بڑی ماں میں بھی یہ ہی کہانا چاہتا تھا کہ اب شاہ کی شادی ہو جانی چاہیے بلال نے مزہ سے کہا ماما میری شادی کی بات کہاں سے اگئی ہے وارث نے بلال کو گھوتے ہوے کہا کیا مطلب میں نے بس اس سال تمہاری شادی کرنی ہے دعا نے کہا چھوٹی ماں دیکھا نا وارث نے حریم کو کہا شاہ فکر نا کرو میں خود تمہیں لیے لڑکی پسند کرو گئی حریم نے کہا چھوٹے پاپا وارث نے ایک اور کوشش کی احمد نے ہاتھ اپر کیے اس کا مطلب تھا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے شاہ منہ بناتا اٹھا مجھے ابھی شادی نہیں کرنی شاہ بیٹھوں ناشتہ کرو احد صاحب نے سنجیدر ہوتے ہوئے کہا وارث چپ کر کے ناشتہ کرنے لگا اور آپ لوگوں بھی چپ کر کے ناشتہ کرے احد صاحب نے کہا


آج اس کا یونی میں پہلا دن تھا یونی کے ماحول کو دیکھا کر وہ گھبرائی اس نے کنتی محنت کی تھی یہاں تک انے میں جس کچے علاقہ سے وہ ہے اس علاقہ میں تو اس کی عمر کی لڑکیاں شادی کر کے اپنے سسرال چلی جاتی ہے لیکن اس نے بہت محنت کی رات دن ایک کیا اور پورا بصوبے میں دوسرا نمبر میں ائی اس کے بعد اس نے B's اونر میں ایڈمیشن لیا جو کہ با اسانی اس کو مل گیا ابھی وہ انہی سوچوں میں تھی کہ اس نے سر نفی میں ہلایا اور اگے بڑی ابھی گلاس شروع ہونے میں ٹائم تھا وہ ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی اتبھی کیسی کی آواز اس کے کانوں میں پری جو برے مزہے سے جونیئز کو بے وقوف بننے کی تیاری کر رہے تھے ان کی بات سن کر مسکرائ وہ بہت کم مسکراتی تھی اور نفی میں سر ہلاکر کلاس کی طرف بری


کلاس میں ایک لڑکا ایا سب لوگ اس کو دیکھا کر حیران ہوے وہ کہاہی سے سر نہیں لگتا تھا لڑکیاں کو اس کو دیکھا کر پاگل ہو گئی وہ لگتا ہی کیسی فلم کا ہئرو تھا ہیلو کلاس میں آپ سب کا سر ہو میرے نام شاہ ہے آپ اپنے تعاف کروے اس نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا ہیلو سر میرے نام دعا ہے دعا نے ایک ادا سے کہا اووو ہیلو مس بد دعا شاہ نے شرارت سے کہا اور ساری کلاس ہنسے لگئی دعا غصہ سے سر کو دیکھا کر اور چپ کر کے بیٹھ گئی اب باری نور کی تھی شاہ نےکہا مس آپ اپنا تعاف کروے نور کتاب کھول کر کچھ پڑھنے میں مصروف تھی ہیلو مس آپ شاہ نے اس کو پھر بولایا لیکن نور نے اس شو کیا کہ کوئی بات سنی ہی نہیں ہو شاہ کو اب غصہ ارہا تھا اس لڑکی پر نور نے اٹھا کر کہا سوری سر مجھے سنای کم دیتا ہے اور ساری کلاس ہنسے لگئی مس اپنے نام بتاے شاہ نے ضبظ کرتے ہوے کہا سوری سر میں ہر کسی کو اپنا نام نہیں بتاتی نور نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا شاہ اس کی بات سن کر گھورا سے اس لڑکی کو دیکھا اس طرح دیکھنا پر نور پت گئی اس چلی ہوئی شاہ کے پاس ائی اگر آپ نے مجھے دیکھا لیا ہو مسٹر سنئیر وہ آپ جاسکتے ہے شاہ پریشان ہوا اس کا کیسے پتا اور باکی کلاس اس کی بات سن کر پریشان ہوئی یعنی ہمہارے ساتھ مزاق ہو رہا تھا آپ کیسے لہجہ میں مجھے سے بات کر ہی ہے آپ جانتی ہے شاہ نے کہا ہاں جانتی ہو آپ جیسے لوگوں کے ساتھ میں اس طرح ہی بات کرتی ہوں نور نے کہا میرے جیسے لوگوں سے مراد شاہ نے زچ ہوتے ہوے کہا وہ ہی جو لڑکیوں کو گھورا کر دیکھتے ہے نور نے کہا اس سے پہلے. شاہ کچھ کہتا دو آنکھیں جو کب سے یہ منظر دیکھ رہی تھی اندر ایا یہاں کیا ہو رہا ہے سر توحید نے کہا شاہ نے سر کو دیکھا کر نور کی طرف ایا تم نے مجھے کیا کہا شاہ اپنی کلاس میں جاو سر نے کہا ٹھیک ہے سر لیکن یہ مجھے سے معافی مانگے گئی پہلے شاہ نے کہا نور اس کی بات پر مسکرائ اس کی مسکراہٹ دیکھا کر کلاس کے سب لڑکوں نے اہ بھرئ سر توحید بھی شاہ کو اس کی مسکراہٹ زاہر گا رہی تھی Sorry my foot نور نے کہا شاہ کلاس میں جاو اور آپ یہاں پڑھنے ائی ہے یا لڑنے سر نے کہا شاہ غصہ سے باہر چلا گیا اور نور سر کو اگنور کرتی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ شاہ غصہ سے کلاس سے باہر آیا لیکن بہت جلدی یہ خبر آگ کی طرح پوری یونی میں پھلیے گئی کہ شاہ کی کیسی لڑکی نے بےغرتی کی ہے سر توحید نے لیکچر لیا اور کلاس سے نکالتے وقت نور سے کہا مسں نور آپ میرے آفیس میں او نور آفیس میں آئی جی سر مس نور آپ جانتی نہیں ہے آج آپ نے کیا کیا ہے وہ شاہ ایک نمبر کا گنڈ ہے سب لوگ اس سے ڈدرتے ہے اور پرسنپل سر بھی اس کو کچھ نہیں کہ سکتے ہے نور اس کی بات گھورا سے سن رہی تھی پھر بولی تو کیا میرا خیال ہے آپ کو اس سے معافی مانگنی چاھے سر نے اس کی بات پر حیران ہوتے ہوے کہا دیکھ سر سوری تو میں کبھی نہیں کرتی کیسی کو میں کیسی کو یہ حق نہیں دیتی کے وہ مجھے بتائے کہ کیا کرنا چاھے کیا نہیں نور سے سنجیدر لہجہ میں کہا اس کی تنظز پر سر بس مسکراے ٹھیک ہے مس نور میں بس آپ کے لیے پریشان ہو وہ آپ سر میری فکر نہ کرے میرے ساتھ میرا اللہ ہے وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا میں جاوے نور نے اس کی بات کاٹ کر کہا جبکہ توحید پریشان سا ہاں میں سر ہلایا نور کے جانے کے بعد توحید نے قہقہا لگایا اہم مجھے یہ پسند ائی


اسلام بوس ایک لڑکے نے اکر کہا بوس کام ہوا گیا ہے ہم اچھی بات ہے بوس نے مسکراتے ہوے کہا کیا بات ہے بوس لڑکے نے پوچھا ایک نئ چڑیا ائی ہے یونی میں مجھے وہ پسند ائی میں نے سوچا ہے کہ کچھ دن تک اپنے پاس رکھوں گا اور پھر شیخ کو دے دو گا بوس نے شیطانی مسکراہٹ سے کہا جی بوس میں اب جاو لڑکے نے پوچھا ٹھیک ہے


نور گاس پر بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھی اچانک دو لڑکیاں اس کے پاس آئ اسلام و علیکم میں دعا اور یہ زویا دعا نے کہا نور نے ان دونوں کو دیکھا اور اسلام کا جواب دیا جی کوئی کام تھا نور نے پوچھا کیونکہ دونوں ہی اس کی کلاس فیلو تھی کیا ہم آپ سے دوستی کر سکتی ہے دعا نے کہا نہیں نور نے ایک الفاظ میں جواب دیا کیوں یار ہم تمہاری کلاس فیلو ہے زویا نے کہا میں یونی پڑھنے ائی ہو دوستیاں کرنے نہیں نور نے کہا اور کلاس کی طرف چلی گئی اس کی بات سن کر دعا بولی ھو ڑور یہ سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو


کیا ہوا شاہ نے پوچھا سر ہم نے کوشش کی لیکن پھر زویا نے سب بتایا شاہ سن کر بولا چلو اب آپ لوگ جاو
ان کے جانے کہ بعد شاہ نے بلال کو فون کیا ھیلو بلال ایک لڑکی کی فوٹو بیجھتا ہو اس کی ساری انفارمیشن نکالو ٹھیک ھے بلال نے کہا


نور یونی سے کلاس سے نکالی شاہ اس کے پاس ایا مس نور تم مجھے جانتی نہیں تھی لیکن اب تمہیں پتا چل گیا. ہے میں کون ہوں ہاں مجھے پتا چلا گیا ہے کہ آپ کون ہے مسڑ سیئنر نور نے کہا ٹھیک ھے مجھے سے معافی مانگوں شاہ نے کہا معافی کبھی نہیں نور عبداللہ کبھی کیسی سے معافی نہیں مانگتی نور نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا مجھے جانتی ہو میں تمہارے ساتھ کیا کر سکتا ہوں کیا تمہیں اپنی غرت پیاری نہیں ہے شاہ نے سخت لہجہ میں کہا مسڑ سیئنر ہر لڑکی کو اپنی غرت پیاری ہوتی ہے اگر آپ مجھے ڈدر رہے ہے تو مجھے گلی کے کتا سے بھی ڈدر نہیں لگتا نور نے کہا اور وہاں سے چلی گئی. شاہ اس کی بات سن کر حیران ہوا پھر غصہ ایا


نور گھر ائی سامنے سلیم کی ماں تھی جو عبداللہ سے کچھ بات کر رہی تھی نور کو اس کو دیکھا کر غصہ ایا اسلام بابا نور نے کہا و علیکم اسلام میری بیٹی اگئی عبداللہ نے جواب دیا کیسی ہو نور سلیم کی ماں نے پوچھا آپ یہاں کیا لینے ائی ہے انٹی نور نے کہا نور پرانی باتوں کو بھول جاو عبداللہ نے کہا یہ سلیم کا راشتہ لے کر ائی ہے نہیں بابا میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو یہ اپنے جائز بیٹا کے لیے کوئی جائز لڑکی ڈھود لے نور نے کہا اللہ اللہ اس کی زبان دیکھی ہے بھائ آپ نے میں نے تو پہلے ہی. کہا تھا آپ سے پتا نہیں کس کا خون ہے سلیم کو ہی بڑا شوق تھا کہ میں آپ کے گھر راشتہ لے کر او سلیم کی ماں نے کہا ٹھیک ھے پھر مجھے سلیم سے شادی نہیں کرنی اب اگر آپ نے یا سلیم نے شادی کی بات کی تو میں سلیم کے ھاتھ پاوں توڑ دو گئی نانو نے سنجیدر لہجہ میں.کہا سلیم کی ماں اپنی اتنی غرت پر غصہ ہے چلی گئی


وارث پریشان سا بیٹھ تھا بلال اس کے پاس ایا کیا بات ہے بلال نے پوچھا یار یہ لڑکی بہت عجیب ہے شاہ نے کہا اہم اہم میرے بھائی ایک لڑکی کی وجہ سے پریشان ہے بلال نے اس کو تنگ کرتا ہوے کہا یار نہیں کرو پہلے ہی میں پریشان ہو وارث نے کہا کیا کپیٹن وارث علی شاہ پریشان ہے تو ضرور کوئی بات ہوئی ہے (جی آپ سب سوچتے ہو گیا میں بتاتی ہو) جی وارث اور بلال دونوں ہی آرمی میں ہے اور سیکرٹ ایجٹ بھی اس وقت ہی وہ اپنے میشن پر ہے (شاہ بن کر وارث یونی میں ہوتا ہے جبکہ بلال ایک لڑکا بن کر بوس کے پاس ہوتا ہے ) شاہ نے بلال کو سب بتایا یار یہ تو مسلہ ہو گیا اب بلال بھی پریشان ہوا ہاں بات تو پریشانی کی ہے لیکن اللہ بہتر کرے گا شاہ نے کہا....

   0
0 Comments